News

آئندہ مالی سال 25-2024 کےلیے 18 کھرب 87 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش

YouTube

By loading the video, you agree to YouTube’s privacy policy.
Learn more

Load video

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے 18 کھرب 87 ارب روپے سے زائد کا سالانہ بجٹ 25-2024 پیش کردیا۔ 

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ایوان زیریں کے بجٹ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔

وزیراعظم شہباز شریف بھی بجٹ پیش کیے جانے سے قبل ایوان میں پہنچے اور اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو بجٹ پیش کرنے کی دعوت دی۔

اپنی تقریر کے آغاز میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے اسٹینڈ بائی معاہدہ کرنے پر اس کی تعریف کرنا ہوگی۔ اسٹیڈ بائی معاہدے سے معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی۔ اسٹینڈ بائی معاہدے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا۔ منہگائی مئی میں کم ہو کر 12 فیصد تک آگئی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کم کیا جانا مہنگائی پر قابو پانے کا ثبوت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ میں ہیں۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا ک ہماری مالیاتی استحکام کی کوششیں ثمر آور ہو رہی ہیں، سرمایہ کار متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ 

انکا کہنا تھا کہ نواز شریف نے 1990 کی دہائی معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی، شہبازشریف نے نواز شریف کے ریفارم ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اختیام کو پہنچا۔ نئے آئی ایم ایف پروگرام کا حصول مشکل نظر آرہا تھا، شہباز شریف نے گزشتہ سال آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا۔ 

انکا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کم کیا جانا مہنگائی پر قابو پانے کا ثبوت ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے انتھک محنت پر شہباز شریف اور اتحادی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ زیادہ اخراجات سے مہنگائی بڑھی، پیداواری صلاحیت اور آمدن کم ہوئی۔ عالمی معاشی نظام کے ساتھ چلتے ہوئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔

بجٹ خسارہ 8 ہزار 500 ارب رہنے کا تخمینہ

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اگلے سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 500 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔ رواں مالی سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 388 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی سرپلس 1 ہزار 217 ارب روپے رکھنے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال صوبائی سرپلس 600 ارب سے کم کر کے 539 ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر بجٹ خسارہ 7 ہزار 283 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ رواں مالی سال مجموعی مالیاتی خسارہ 6 ہزار 900 ارب سے بڑھ کر 7 ہزار 839 ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔ 

انکا کہنا تھا کہ رواں سال مجموعی مالی خسارہ جی ڈی پی کا منفی 6.5 فیصد سے بڑھ کر منفی 7.4 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اگلے مالی سال کےلیے مالی خسارہ منفی 5.9 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ اگلے مالی سال پرائمری خسارہ 2 ہزار 292 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ رواں سال پرائمری خسارہ 397 ارب روپے سے بڑھ 402 ارب رہنے کا امکان ہے، اگلے مالی سال کے لیے پرائمری خسارہ دو فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، رواں مالی سال پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ 4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ 

حکومت کا ریونیو ٹارگٹ 12 ہزار 970 ارب مقرر

وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت کا ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا ہے۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 4 ہزار 845 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، گراس ریونیو کا ہدف 17 ہزار 815 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5 ہزار 142 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔  نجکاری سے 30 ارب روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جاری اخراجات کا ہدف 17 ہزار 203 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ سود کی ادائیگی پر 9 ہزار 775 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کےلیے جی ڈی پی کا حجم 1 لاکھ 24 ہزار 150 ارب روپے رہنے کا ہدف ہے۔  رواں سال جی ڈی پی کا حجم 1 لاکھ 6 ہزار 45ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔ 

ٹیکس وصولیاں

وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال ایف بی آر کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔ حکومت نے رواں سال کےلیے ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں کمی کردی۔

انکا کہنا تھا کہ رواں سال کےلیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 415 ارب سے کم کر کے 9 ہزار 252 ارب کردیا ہے، نظرثانی شدہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 163 ارب روپے کی کمی کردی گئی۔

بجٹ دستاویز کے مطابق نظرثانی شدہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 163 ارب روپے کی کمی کردی گئی ہے۔ اگلے سال کےلیے براہ راست ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 512 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اگلے سال انکم ٹیکس کی مد میں 5 ہزار 454 ارب 6 کروڑ روپے کا ہدف مقرر ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافہ

بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں 22 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 

پینشن پر 1 ہزار 14 ارب خرچ ہوں گے

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال 25-2024 میں پینشن پر 1 ہزار 14 ارب روپے خرچ ہوں گے۔

انکا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 22 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔

دفاع کیلئے 2 ہزار 122 ارب مختص

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ دفاع کےلیے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ملک بحرانی صورتحال سے نکل چکا

انہوں نے کہا کہ ملک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے، دیرپا ترقی کے سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔ ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ اصلاحاتی منصوبے پر تمام اداروں اور عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کے ایجنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان جلد ہی پائیدار ترقی کی جانب لوٹ آئے گا۔

انکا کہنا تھا کہ نجی شعبے کو معیشت کو مرکزی اہمیت دینے کا وقت ہے۔ ماضی میں ریاست پر غیرضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ ماضی میں حکومتی اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے۔

شعبہ زراعت: مارک اپ اینڈ رسک شیئرنگ اسکیم کیلئے 5 ارب مختص

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زراعت ہماری معیشت کا اہم ستون ہے، اس کا جی ڈی میں حصہ 24 فیصد ہے۔ روزگار کے مواقع پید کروانے میں شعبہ زراعت کا حصہ 37.4 فیصد ہے۔ ملک کی فوڈ سیکیورٹی اور صنعتی شعبے کی پیداواری صلاحیت اسی شعبے پر منحصر ہے۔ زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی پروری قیمتی زر مبادلہ کمانے کے بڑے ذرائع ہیں۔ وزیر اعظم نے 2022 میں کسان پیکج کے تحت مارک اپ اینڈ رسک شیئرنگ اسکیم کا اعلان کیا تھا جبکہ اگلے سال اس اسکیم کےلیے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

فائلرز اور نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز

وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ 2024ء میں آئندہ مالی سال کےلیے فائلرز اور نان فائلرز کے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال پراپرٹی پر کیپٹل گین پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق فائلرز کی شرح میں 15 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے 45 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق سیمنٹ پر ایف اے ڈی 2 روپے فی کلو سے بڑھا کر 3 روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ نئے پلاٹوں، کمرشل و رہائشی پراپرٹی پر 5 فیصد ایف آئی ڈی کی تجویز ہے۔

صوبوں کیلئے گرانٹس اور سبسڈی

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبوں کو گرانٹس کی صورت میں 1 ہزار 777 ارب روپے منتقل ہوں گے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سبسڈی کی مد میں 1 ہزار 363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سول حکومت کےلیے 839 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایمرجنسی سے نمٹنے کےلیے 313 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کےلیے 1400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 274ارب روپے قرض ہوگا۔

کم سے کم اجرت

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کم از کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار کرنے کی تجویز ہے۔

اسکولوں میں میل پروگرام کا متعارف

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں سازگار ماحول کےلیے سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسلام آباد کے 167 سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سہولیات بہتر بنانے کےلیے رقم رکھنے کی تجویز ہے۔

انکا کہنا تھا کہ طلبا و طالبات کی جسمانی و ذہنی نشوونما کےلیے اسکول مِیل پروگرام متعارف کروا رہے ہیں۔ اسلام آباد کے 200 پرائمری اسکولوں میں طلبا کو متوازن کھانا فراہم کیا جائے گا۔ 

وزیر خزانہ نے کہا کہ پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کےلیے ای لائبریریاں بنائی جائیں گی۔ اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو اعلیٰ نتائج کے حامل تربیتی اداروں میں بدلا جائے گا۔ 100 اسکولوں میں اعلیٰ چائلڈ ہُڈ ایجوکیشن مراکز قائم کیے جائیں گے۔ دانش اسکول پروگرام اسلام آباد، بلوچستان، آزاد کشمیر اور جی بی تک پھیلایا جا رہا ہے۔ 

متفرق اہداف

وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے سال موبائل فون پر ڈیوٹی کی مد میں 24 ارب 81 کروڑ روپے کا ہدف مقرر گیا ہے۔ 

انکا کہنا تھا کہ جائیدادوں پر انکم ٹیکس سے 477 ارب 11 کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ فور جی کے لائسنس کی فروخت سے 32 ارب 61 کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے۔ 

صوبوں سے سود کی مد میں 96 ارب روپے 35 کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ 

بجٹ دستاویز کے مطابق اگلے مالی سال کیپٹیل ویلیو ٹیکس 5 ارب روپے اضافے سے 15 ارب 66 کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 

اسی طرح ورکرز ویلفیئر فنڈ 16 ارب 63 کروڑ 70 لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے۔  ان ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 7 ہزار 458 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے 

اگلے سال کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 591 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سیلز ٹیکس کی مد میں 4ہزار 919 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ 

وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کا ایوان میں شور شرابہ جاری رہا۔ 

سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ دستاویزات پھاڑ کر کاغذ ہوا میں بکھیر دیے




Source link

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button